بچپن سے سارے لوگوں کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔
کیونکہ ہم اسی عمر سے ہی قصے سنتے رہتے ہیں۔ ہر کہانی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
ہر کہانی کاکردار الگ ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی کہانی کسی نتیجے کے بغیر نہیں
ہوتی۔ اگر کسی کہانی کے آخر میں نتیجہ نہ بھی ہو تو بھی پڑھنے والے کو اندازہ ہوتا
ہے کہ کہانی کس بارے میں تھی۔ کہانی سنانے کا رواج ہمارے گھروں سے ہی شروع ہوتا ہے
اور پھر جب آپ دنیا میں کہیں بھی جاؤ، کسی سے چھوٹی سے بات پوچھ لو تو وہ کہانی
سنانا شروع کردیتا ہے۔ اس کی کہانی میں فرق صرف اتنا ہوتاہے کہ وہ اپنی کہانی کسی
ماہر کہانی نویس کی طرح الفاظ کے ذخیرے میں بیان نہیں کرسکتا۔
اس وقت اگر دنیا میں دیکھا جائے تو آبادی سات ارب تک ہے۔ ہر
ملک کے لوگ دوسرے ممالک کے لوگوں سے شکل و صورت میں مختلف ہیں۔ اگر کوئی اس آبادی
کے تمام افراد کے ناموں کی فہرست بنائیں تو ایک بہت بڑی اور لمبی فہرست بن جائے
گی۔ لیکن اگر ہم ان تمام افراد کی فہرست خصوصیات اور مزاج کی شکل میں بنائے تو پھر
بہت مختصر فہرست تیار ہوگی کیونکہ دنیا میں افراد ذیادہ ہیں مگر مزاج اور خصوصیات
بہت کم۔ مثلا خوش اخلاق، بد اخلاقی، سست ،
چست، محنت کش، کاہل، محبت کرنے والا، نفرت کرنے والا، مظلوم ، ظالم، سچا ، جھوٹا،
سخاوت کرنے والا، بخیل، ایسے چند ہی خصوصیات ہیں جس میں پوری دنیا کے افراد کو
تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
عام طور پر جب ہم بچپن کی کہانیوں کی بات کرتے ہیں تو ماں
کی یاد ضرور آئے گی کیونکہ ہم اکثر کہانیاں اپنی ماں کی زبانی ہی سنتے ہیں۔ گھر کے
دوسرے کاموں کے علاوہ ماں نے اپنے اوپر یہ ایک اور ذمہ داری عائد کی ہوتی ہے کہ
بچوں کو کہانی سنا کر ہی سلایا جائے۔ لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جب بچپن
میں ہم کوئی غلطی کرتے تھے میں ماں کو ایک دم سے پتہ چل جاتا۔ یعنی ماں ایک ایسی
ماہر نفسیات ہے جس سے بچے کی کوئی بھی حرکت چپ نہیں سکتی۔ جب ماں پوچھتی کی یہ غلط
کام کیوں کیا تو خود کو سچ ثابت کرنے کے
لیے ہم اور بہت سارے جھوٹ بولتے تھے۔ لیکن ہمیں تب پتہ نہیں چلتا کہ انسان جو بھی
کرتا ہے وہ اس کے چہرے پر نظر آتا ہے۔ اور چہرے پڑھنے والا بہتریں ماہر صرف ماں
ہے۔ اس بات کا پتہ ہمیں بعد میں تعلیم اور
سائنسی تحقیق پڑھ کرکے ہوتا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس کے چہرے پر نظر آتا
ہے۔ انسان کا چہرہ اس کے احساسات اور جذبات اور خیالات واضح طور پر بیان کرتا ہے۔
ہماری زندگی پیدائش سے شروع ہو کر موت پر ختم ہو جاتی ہے۔
پیدائش اور موت کے درمیان والی زندگی کے سارے راز ہمارے چہرے پر ہی لکھے جاتے ہیں۔
مگر دنیا کے لوگ کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ چہرے دیکھ کر کہانیاں پڑھنے کا وقت
کسی کے پاس نہیں۔ کسی کا چہرہ اس کی ساری داستان چند لمحوں میں آپ کو بیان کر سکتی
ہے۔ اس کے چہرے کا نشیب و فراز اس کے ماتھے کے بل اور ہونٹوں کی مسکراہٹ ، آنکھوں
کی نمی اور ہونٹوں کا خشک پن اس کی زندگی کی ساری داستان کا احاطہ کرتی ہے۔ رشوت
لینے والا لاکھ کوشش کرہے وہ اپنے چہرے سے یہ داغ نہیں ہٹا سکتا۔ ظالم کی آنکھوں
میں سرخی، مظلوم کی آنکھوں میں حسرت اور بے بسی ، محنت کش کا دبلا پتالا وجود اور
حرام خور کا نکلا باہر نکلا ہوا پیٹ اوراسطرح کسے غریب کی داستان اس کے سوکھے ہوئے
بدن اور جسم کے کپڑے اس کی ساری کہانی سناتے ہے۔ ایک بچہ جو معصوم ہوتا ہے وہ کوئی
مکاری نہیں کرسکتا جب اس کی خوشی اور پریشانی کا پتہ لگانا ہو تو وہ بھی اس کے
چہرے سے معلوم ہوگا۔
اس دنیا میں بہت سارے لوگ خود کو اپنی ذات سے الگ دیکھانے
کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وہ پھر بھی اس کوشش میں ناکام ہوتے ہیں کیونکہ باطن کا نقشہ
چہرے پر صاف نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اللہ نے ہی یہ آئینہ بنایا ہے کہ منافق اورسچے میں
فرق کیا جا سکے۔ کسی کا چہرہ پڑھ کرہم بھی کبھی اس کے زد میں آ جاتے ہیں۔ کوئی
چہرہ دیکھ کر ہمیں سکون ملتا ہے۔ تو کس چہرے کو دیکھ کر ہم بے قرار ہو جاتے ہیں۔
آج کل کی دنیا میں ہرکوئی بہت ساری مصروفیات اور ذہنی تناؤ لے کے گھومتا ہے۔ وہ
اپنی داستان کسی کو سنا نہیں سکتا کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے اور کوئی اس کے کو
چہرے کو پڑھنے کے لیے رکتا نہیں۔ تجربے کی بات ہے آپ ویسے ہی گھر سے نکل جائے کسی
کو راستے میں روک لیں اور اس کا چہرہ غور سے دیکھ لیں۔ اسی وقت آپ کو اندازہ ہو
جائے گا کہ اس کے احساسات اور خیالات کیا ہے۔ یہ ساری کہانی آب اسے بتا سکتے ہے کیونکہ چہرے زبان سے زیادہ بولتے ہیں۔سامنے والا حیران بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ آپ کو اپنی تھوڑی کہانی سنا کر اپنا دل ہلکا بھی کر سکتا ہے۔ آب بھی اس کی بات سن لیے شائد یہی اس کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہو۔
👌👌👌
ReplyDeleteThanks
Delete